تہران: اسرائیل نے دانستہ طور پر غلط معلومات، دھوکے اور منظم پراپیگنڈے کے ذریعے ایران کو غفلت میں رکھا تاکہ وہ اپنی دفاعی تیاری مکمل نہ کر سکے۔ اس چال میں امریکا کے صدر کا بھی اہم کردار رہا، جنہوں نے سازشی انداز میں اس پورے منصوبے کی حمایت کی۔
، جنہوں نے سازش
ی انداز میں اس پورے منصوبے کی حمایت کی۔
13 جون کی شب ایران پر اسرائیلی حملے کے پس منظر میں اسرائیلی حکام نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ گزشتہ کچھ دنوں میں اسرائیل اور امریکا نے مل کر ایک ہمہ جہت غلط اطلاعات کی مہم شروع کی تاکہ تہران کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ فی الحال جوہری تنصیبات پر کسی قسم کی کارروائی کا ارادہ نہیں ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس خفیہ منصوبے میں مکمل طور پر شریک تھے اور انہیں اس حملے کی پیشگی اطلاع تھی۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ جب وزیر اعظم نیتن یاہو نے پیر کے روز حملے کا فیصلہ کیا، تو اسی دن دونوں رہنماؤں کے درمیان 40 منٹ تک ٹیلیفون پر گفتگو ہوئی۔
اس وقت یہ بھی رپورٹ ہوا کہ اسرائیل کے چینل 12 کو کچھ نامعلوم ذرائع سے یہ اطلاع دی گئی کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو "ڈرامائی" انداز میں قائل کیا کہ ایران کے خلاف ممکنہ کارروائی کو مؤخر کیا جائے کیونکہ سفارتی مذاکرات جاری ہیں۔
اسرائیلی ٹی وی چینل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرمپ نے واضح کیا کہ کسی بھی عسکری مداخلت پر تب ہی غور کیا جائے گا جب تک کہ ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات مکمل طور پر ناکام قرار نہ دے دیے جائیں۔
تاہم، اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یہ تمام باتیں اصل حقیقت سے ہٹانے کا منصوبہ تھیں۔
اگلے ہی روز نیتن یاہو نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا کہ حماس کے
ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے "اہم پیش رفت" ہوئی ہے۔
اسی دوران حکام نے اسرائیلی صحافیوں کو بتایا کہ جمعرات کے روز ہونے والے کابینہ اجلاس میں یرغمالیوں سے متعلق بات چیت ایجنڈے میں شامل ہو گی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ بین الاقوامی مبصرین اور سفارتی حلقے اس مبینہ پیش رفت سے مکمل طور پر لاعلم تھے کیونکہ درحقیقت ایسا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔
ایک عرب عہدیدار، جو حماس کے ساتھ مذاکرات سے واقف تھے، نے بھی ٹائمز آف اسرائیل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایسی کسی بڑی پیش رفت کا علم نہیں۔
اسرائیلی ذرائع نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ تمام جھوٹے اشارے اور اطلاعات ایران کو گمراہ کرنے کے لیے تھے تاکہ اسے یہ تاثر دیا جائے کہ اسرائیل اس وقت حملے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا بلکہ اس کی توجہ مذاکرات پر مرکوز ہے۔
اسی دوران اسرائیل نے ایک اور بیانیہ بھی دنیا کے سامنے رکھا کہ وہ ایران کے جوہری معاملے کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کر رہا۔ اس مقصد کے لیے اعلان کیا گیا کہ اسرائیلی وزیر برائے اسٹریٹیجک امور، رون ڈرمر اور موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا، امریکی خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف سے ملاقات کے لیے روانہ ہوں گے۔ اس کا مقصد ایران اور امریکا کے درمیان اتوار کو ہونے والے مذاکرات سے قبل اسرائیلی مؤقف کی وضاحت بتایا گیا۔
جب ٹائمز آف اسرائیل نے وزیراعظم کے دفتر سے اس ملاقات کی جگہ کے بارے میں براہ راست سوال کیا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ بعد ازاں یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ ایسی کوئی ملاقات دراصل شیڈول میں شامل ہی نہیں تھی۔
اسرائیل کی منصوبہ بندی یہی تھی کہ ایرانی قیادت یہ سمجھے کہ مذاکرات مکمل ہونے سے قبل کوئی حملہ نہیں کیا جائے گا۔
تمام تر محاذوں پر اسرائیل نے ایک نارمل تاثر دینے کی کوشش کی۔ نیتن یاہو کے دفتر نے جمعرات کو ایک سرکاری بیان میں واضح کیا کہ میڈیا رپورٹس کے برخلاف، وہ شمالی اسرائیل میں اپنی ویک اینڈ چھٹیاں منسوخ نہیں کر رہے۔
نیتن یاہو کے بیٹے ایونر کی شادی بھی اگلے ہفتے طے تھی، اور شادی کی تیاریاں پوری شدت سے جاری تھیں، جس کی وجہ سے بھی ایران کو یہ تاثر ملا کہ فی الحال کوئی جنگی کارروائی ممکن نہیں۔
جمعرات کو، تل ابیب کے شمالی علاقے کبٹز یاکم میں واقع رونٹز فارم ایونٹ ہال کے ارد گرد پولیس نے فولادی رکاوٹیں اور خاردار تاریں نصب کیں تاکہ تقریب کے لیے سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی اس چال میں مکمل اشتراک کیا اور ساز باز میں برابر کے شریک رہے۔
امریکا میں تعینات اسرائیلی سفیر، مائیک ہکابی نے بھی جمعرات کے روز ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کا ایران پر بغیر امریکی اجازت کے حملہ کرنا ممکن نہیں۔
اس تمام صورت حال میں اسرائیل نے یہ تاثر دینے میں کامیابی حاصل کی کہ وہ اتوار کو طے شدہ جوہری مذاکرات کے نتائج کا انتظار کر رہا ہے اور حملہ فی الوقت ممکن نہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب اسرائیل نے اس
طرح کا دھوکا دیا ہو۔
اس سے قبل 2008-2009 میں آپریشن کاسٹ لیڈ کے آغاز سے پہلے بھی یہی حکمت عملی اپنائی گئی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے دور میں بدھ کے روز سیکیورٹی کابینہ کی میٹنگ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ عالمی جہاد سے نمٹنے کے لیے ہے، حالانکہ حقیقت میں اجلاس غزہ پر حملے کی منصوبہ بندی کے لیے تھا۔
اس میٹنگ کے بعد جاری اعلامیہ میں 35 اسلامی گروپوں کو کالعدم قرار دینے پر تو تفصیل سے روشنی ڈالی گئی، لیکن غزہ کے بارے میں محض ایک لائن شامل کی گئی۔
جمعرات کے روز اسرائیلی حکومت نے اعلان کیا کہ غزہ کی سرحدی گزرگاہیں کھول دی جائیں گی اور اولمرٹ اتوار کو حماس سے مذاکرات کریں گے۔ لیکن اس کے برعکس، ہفتہ کے دن اچانک حملہ کر دیا گیا۔
اس بار بھی یہی چال دہرائی گئی، اور اس بار دھوکہ اتنا کامیاب رہا کہ ایرانی افواج کے اعلیٰ ترین کمانڈر اپنے گھروں پر موجود تھے اور انہیں کسی فوری حملے کی توقع نہیں تھی، نتیجتاً وہ براہ راست حملے کا نشانہ بنے۔
Comments